سانحہ ماڈل ٹاؤن انصاف کب ملے گا؟

ہمیں عدلیہ سے، ریاست سے، قانون سےاور سب سے بڑھ کر ضمیر سے یہ سوال کرنا ہے کہ: کیا انصاف اب بھی ممکن ہے؟

تحریر: ایم اے زیب رضا خان

17 جون 2014 کی وہ صبح پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا سیاہ باب رقم کر گئی جسے بھلانا نہ صرف ناممکن ہے بلکہ ضمیر کے زندہ ہونے کی علامت بھی اسی کے تذکرے سے جڑی ہے۔ماڈل ٹاؤن لاہور میں پولیس نے بے گناہ اور نہتے شہریوں پر گولیاں چلائیں، جن میں خواتین، بزرگ اور نوجوان شامل تھے۔ چودہ افراد شہید ہوئے، سینکڑوں زخمی، اور وہ لمحے ہمیشہ کے لیے اس قوم کی اجتماعی یادداشت میں کندہ ہو گئے۔

یہ سانحہ صرف چند افراد کے قتل کا واقعہ نہیں، بلکہ ریاست اور اس کے ادارے پولیس کی جانب سے اپنے ہی شہریوں پر بدترین ظلم کی داستان ہے۔ وہ ویڈیوز، وہ تصاویر، وہ چیخیں اور وہ لہو سے رنگے مناظر صرف لمحاتی خبر نہ تھے، بلکہ انصاف، انسانیت اور ضمیر کے زندہ ہونے کا امتحان تھے۔

2018 میں اس واقعے میں شہیدہ تنزیلہ امجد کی کم سن بیٹی بسمہ امجد نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے اپیل کی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار اور شفاف تفتیش کے لیے ایک نئی تحقیقاتی ٹیم (JIT) تشکیل دی جائے۔ 5 دسمبر 2018 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے اس اپیل کو سنا اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دلائل کی روشنی میں ازسرِنو تفتیش کے لیے نئی JIT بنانے کی منظوری دی۔

3 جنوری 2019 کو A.D خواجہ کی سربراہی میں نئی JIT کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اس JIT نے محض رسمی کارروائی نہیں کی بلکہ 14 جنوری سے 20 مارچ 2019 تک سنجیدہ، موثر اور غیر جانبدار تفتیش کی۔ 281 افراد کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں زخمی، عینی شاہدین، شہداء کے لواحقین، اور دیگر گواہ شامل تھے۔ AD خواجہ کے مطابق 80 فیصد تفتیش مکمل کر لی گئی تھی اور اہم بات یہ ہے کہ JIT نےمرکزی ملزمان سے تفتیش کی۔

مگر یہاں کہانی پھر بدل گئی۔ایک پولیس اہلکار خرم رفیق کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے 22 مارچ 2019 کو اس JIT کے نوٹیفکیشن کو معطل کر دیا۔ یوں یہ موثر تفتیش اپنی تکمیل کو نہ پہنچ سکی۔

اسے بھی پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹائون، ناانصافی کے 11 سال

اس عبوری حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا اور 13 فروری 2020 کو سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کو ہدایت دی کہ تین ماہ میں اس مقدمے پر فیصلہ کیا جائے۔مگر افسوس کہ پانچ برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، 56 سے زائد پیشیاں ہو چکی ہیں، لاہور ہائی کورٹ کا بینچ پانچ مرتبہ تبدیل ہو چکا ہے، دونوں فریقین کے دلائل دسمبر 2022 میں مکمل ہو چکے، لیکن فیصلہ آج تک محفوظ ہے۔

انصاف کا یہ تعطل لمحہ فکریہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب متاثرین نے آئینی طریقہ اپنایا، سپریم کورٹ نے ڈائریکشن دی، JIT نے تفتیش مکمل کی، تو پھر یہ فیصلہ کیوں نہیں دیا جا رہا؟ کیا مقتولین کا خون اس لیے کم تر ہے کہ وہ غریب تھے؟ کیا انصاف صرف طاقتوروں کا حق ہے؟

مزید المیہ یہ ہے کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں جب استغاثہ کیس کے تحت مرکزی ملزمان کو طلب نہ کیا گیا، تو عدالت عالیہ سے رجوع کیا گیا، مگر وہاں بھی شنوائی نہ ہوئی۔ تب 2018 میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی، جو آج 2025 تک سماعت کے لیے مقرر بھی نہ ہو سکی۔

اس وقت تین اہم قانونی مقدمات عدالتی نظام کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں:
1. JIT کے نوٹیفکیشن کی معطلی کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
2. مرکزی ملزمان کی طلبی کے خلاف دائر درخواست 2018 سے سپریم کورٹ میں سماعت کی منتظر ہے۔
3. اور JIT کی بحالی سے متعلق کیس 2019 سے لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔

کیا انصاف کی فراہمی اس قدر پیچیدہ ہو چکی ہے کہ ایک کھلی حقیقت پر بھی فیصلہ دینے میں ایک دہائی بیت جائے؟ کیا عوام کے جان و مال کا تحفظ صرف آئینی دستاویزات تک محدود ہے؟ بسمہ امجد آج بھی سپریم کورٹ کی عمارت کو امید کی نگاہ سے دیکھتی ہے، کہ شاید کسی دن، کسی وقت، کوئی جج اس کیس کی فائل کھولے، اور ایک فیصلہ آئے۔ وہ فیصلہ جو شہداء کی ماؤں کی آنکھوں کے آنسو پونچھ سکے، جو ان کے بیٹوں کے خون کو آواز دے، جو انصاف کی روح کو زندہ کرے۔

یہ کالم کسی سیاسی نعرے کا حصہ نہیں، یہ صرف ایک دردمندانہ اپیل ہے ان لوگوں کے لیے جو نظام کا حصہ ہیں، جو کرسیٔ انصاف پر بیٹھے ہیں، جو قانون کے محافظ کہلاتے ہیں۔ خدارا، اس قوم کو مایوس نہ کریں۔ انصاف کو مزید دفن نہ ہونے دیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا فیصلہ ایک انسانی فریضہ ہے، اور اس قوم کی اخلاقی بقا کا تقاضا۔

ہمیں عدلیہ سے، ریاست سے، قانون سےاور سب سے بڑھ کر ضمیر سے یہ سوال کرنا ہے کہ: کیا انصاف اب بھی ممکن ہے؟
یا
ہم صرف خاموش تماشائی ہی رہیں گے؟
اگر آج ہم نے اس سوال کا سامنا نہ کیا، تو کل تاریخ ہم سے ضرور سوال کرے گی اور شاید ہمیں معاف نہ کرے۔

 

متعلقہ خبریں

مقبول ترین