کھٹمنڈو : نیپال کی تاریخ میں پہلی خاتون چیف جسٹس 71 سالہ سشیلہ کارکی کو عبوری سربراہ حکومت کی حیثیت سے نامزد کرنے کے فوراً بعد ملک کی پارلیمنٹ کو ختم کر دیا گیا ہے۔
بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق، بدعنوانی اور سوشل میڈیا پر عائد پابندیوں کے خلاف شروع ہونے والے عوامی احتجاجوں کی وجہ سے موجودہ وزیراعظم کو پہلے ہی اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔ یہ مظاہرے اس قدر شدید تھے کہ انہوں نے حکومت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
فوج نے دارالحکومت کھٹمنڈو پر مکمل قبضہ کر لیا ہے، جبکہ سابق وزرائے اعظم، کابینہ کے ارکان، پارلیمنٹ کی عمارت اور عدالتی دفاتر کو آگ لگا دی گئی ہے۔ یہ واقعات ملک میں سیاسی انتشار کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں، جس نے عوام اور اداروں کے درمیان تناؤ کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔
اب نیپال کی سیاست ایک نئی ہلچل سے دوچار ہو گئی ہے۔ صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں اعلان کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا گیا ہے اور ملک میں نئے عام انتخابات کا انعقاد 5 مارچ 2026 کو کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ موجودہ بحران کو حل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ اس اعلان سے کچھ دیر پہلے ہی عبوری وزیراعظم کی ایک ماہ کی مدت کے لیے تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، جس میں سابق خاتون چیف جسٹس سشیلہ کارکی کا نام قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب ہوا ہے۔ یہ طریقہ کار غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخاب کو یقینی بنانے کے لیے اپنایا گیا۔
صدر کے ترجمان کرن پوکھریال نے میڈیا کو بتایا کہ عبوری وزیراعظم کی تجویز پر پارلیمنٹ کی تحلیل کا حکم جاری کیا گیا ہے اور انتخابات کی تاریخ 5 مارچ 2026 طے کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدامات ملک کو استحکام کی طرف لے جانے کے لیے ضروری ہیں۔
مثبت تجزیہ: امید کی ایک نئی کرن
اس تمام سیاسی بحران اور ہنگامہ آرائی کے باوجود، نیپال کی موجودہ صورتحال میں کئی مثبت پہلو بھی موجود ہیں جو ملک کی مستقبل کی ترقی اور استحکام کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس سشیلہ کارکی جیسی ایک تجربہ کار اور معتبر شخصیت کو عبوری وزیراعظم مقرر کرنا ایک دانشمندانہ قدم ہے۔ وہ نہ صرف ملک کی پہلی خاتون چیف جسٹس رہ چکی ہیں بلکہ ان کی 71 سالہ عمر اور عدالتی پس منظر انہیں بدعنوانی کے خلاف لڑنے اور شفافیت کو فروغ دینے میں ماہر بناتا ہے۔ یہ تقرری قرعہ اندازی کے ذریعے ہونے کی وجہ سے سیاسی دباؤ سے آزاد ہے، جو عوام میں اعتماد بحال کرنے میں مدد دے گی اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ نیپال کا سیاسی نظام اب بھی غیر جانبدارانہ طریقوں پر انحصار کر سکتا ہے۔
پارلیمنٹ کی تحلیل اور نئے انتخابات کا اعلان بھی ایک مثبت پیشرفت ہے، کیونکہ یہ موجودہ بحران کو طویل کرنے کی بجائے ایک واضح روڈ میپ فراہم کرتا ہے۔ 5 مارچ 2026 کی تاریخ تک ملک کو ایک عبوری دور ملے گا جس میں اصلاحات کی جاسکتی ہیں، جیسے کہ بدعنوانی کے خلاف سخت قوانین نافذ کرنا، سوشل میڈیا کی آزادی کو بحال کرنا اور عوامی شکایات کو سننا۔ فوج کا دارالحکومت پر کنٹرول، اگرچہ ابتدائی طور پر تشویش کا باعث ہے، لیکن یہ امن و امان کو برقرار رکھنے اور مزید انتشار کو روکنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، بشرطیکہ یہ عارضی ہو اور سویلین حکومت کی بحالی کی طرف لے جائے۔
عوامی مظاہروں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت کو عوام کی آواز سننی پڑی، جو جمہوریت کی طاقت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ احتجاج، اگرچہ تباہ کن تھے، لیکن انہوں نے سیاسی تبدیلی کی راہ ہموار کی ہے اور ممکن ہے کہ نئی منتخب حکومت زیادہ جوابدہ اور عوام دوست ہو۔ مجموعی طور پر، یہ بحران نیپال کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے اداروں کو مضبوط بنائے، صنفی مساوات کو فروغ دے (جیسے کہ ایک خاتون کو اعلیٰ عہدہ دینا)، اور اقتصادی ترقی کی طرف توجہ مرکوز کرے۔ اگر عبوری حکومت شفافیت اور انصاف پر مبنی اقدامات اٹھائے تو نیپال جلد ہی استحکام حاصل کر سکتا ہے اور علاقائی سطح پر ایک مثالی جمہوریت کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ یہ مثبت سمت کی طرف ایک قدم ہے جو ملک کو مزید بحرانوں سے بچا سکتا ہے اور عوام کی خوشحالی کو یقینی بنا سکتا ہے۔





















