لاہور:پاکستان میں معاشی حالات کی خرابی اور بے روزگاری کے باعث لاکھوں ڈاکٹرز، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، آئی ٹی ماہرین، گرافک اور اینیمیشن ڈیزائنرز، سول، الیکٹریکل اور مکینیکل انجینیئرز کے ساتھ ساتھ فنکار اور دیگر ہنرمند بیرون ملک منتقل ہو گئے ہیں۔ ان افراد نے روانگی سے پہلے پروٹیکٹر اینڈ امیگریشن فیس کی مد میں تقریباً 15 ارب روپے سرکاری خزانے میں جمع کرائے۔
گزشتہ دو برسوں میں تقریباً 16 لاکھ پاکستانی یورپ، امریکہ، کینیڈا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، ترکیہ، ملائیشیا، آسٹریلیا، سنگاپور، چین، اور دیگر ممالک منتقل ہو چکے ہیں۔ ان افراد میں بڑی تعداد ڈاکٹرز، انجینیئرز، آئی ٹی پروفیشنلز، اساتذہ، نرسز اور آرٹسٹوں کی ہے، جنہوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان چھوڑ دیا۔
بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے والوں کو پروٹیکٹر اسٹیمپ کے لیے 7200 سے 9200 روپے فیس ادا کرنی پڑتی ہے، جو بغیر اسٹیمپ کے پاکستان سے سفر نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ بہت سے افراد پروموٹرز یا سیلف ویزا کے ذریعے باہر گئے، جب کہ ہزاروں افراد غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک پہنچے، جن میں سے کئی اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
پروٹیکٹر ڈیٹا کے مطابق، دو سالوں میں بیرون ملک جانے والے ہنرمند افراد میں شامل ہیں۔ بیرون ملک جانے والوں میں سب سے زیادہ تعداد سول، الیکٹرک اور مکینیکل انجینیئرز کی ہے، جن کی تعداد 8145 ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 5700 چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، 3642 ڈاکٹر، 5315 آئی ٹی پروفیشنلز، 3000 نرسیں اور 432 فنکار شامل ہیں، جنہوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا
شعیب گولڈ میڈلسٹ انجینیئر ہیں، لیکن تین سال تک ملازمت تلاش کرنے کے باوجود ناکام رہے۔ تعلیم پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد، وہ بے روزگاری سے تنگ آ کر آسٹریلیا منتقل ہو گئے۔
رضوان نے پاکستان میں چند فرموں میں کام کیا، مگر تنخواہ اور مراعات ناکافی تھیں۔ اب وہ کویت میں اپنی فیملی کے لیے بہتر روزگار کما رہے ہیں۔
عمران کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ناقص انٹرنیٹ اور بار بار بندش کے باعث وہ اپنے بین الاقوامی کلائنٹس کے آرڈرز مکمل نہیں کر سکے۔ لاکھوں روپے کا نقصان ہونے کے بعد، وہ ملائیشیا منتقل ہو گئے ہیں۔
ڈاکٹر فیصل اسپیشلائزیشن کرنا چاہتے تھے لیکن مواقع کی کمی کے باعث پہلے ترکیہ اور پھر جرمنی منتقل ہو گئے، جہاں وہ میڈیکل پریکٹس کریں گے۔
ان پیشہ ور افراد کا کہنا ہے کہ ایسا ملک جہاں وی پی این پر پابندی ہو اور کام کرنا مشکل ہو، وہ ان کے ترقی کے خوابوں میں رکاوٹ بن رہا ہےبہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ترقی کے مواقع کم ہیں۔ انٹرنیٹ بندش، سیاسی افراتفری، اور عدم استحکام ان کے کام میں بڑی رکاوٹیں بن رہی ہیں۔ کئی افراد کے مطابق، بہتر پالیسیوں اور مواقع فراہم کر کے ہنرمند افراد کو ملک میں روکا جا سکتا ہے۔
بیرون ملک جانے والے پاکستانی اپنی کمائی سے ملکی معیشت کو سہارا دے رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق، اوورسیز پاکستانیوں نے 34.67 ارب ڈالر سے زائد زرمبادلہ پاکستان بھیجا۔ تاہم، یہ بھی سوال ہے کہ اگر یہ تجربہ کار افراد مسلسل ملک چھوڑتے رہے تو ملک میں ترقی کے لیے کون کام کرے گا؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان ماہرین کو جدید ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ اور بہتر سہولیات دی جائیں، تو یہی افراد پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔