جوڈیشل کمیشن سے علیحدگی کی وجہ حکومت کا طے شدہ باتوں سے پیچھے ہٹنا:بلاول بھٹو

کراچی: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت قانون سازی کے وقت طے کی گئی باتوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے ، حکومت کی جانب سے ہم سے کہا گیا تھاکہ برابری کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے لیکن بعد میں ایسا نہیں ہوا اسی سبب میں جوڈیشل کمیشن سے احتجاجا الگ ہوگیا۔
بلاول ہاس کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں اگر جوڈیشل کمیشن میں ہوتا تو آئینی بینچ میں فرق پر بات کرتا اور حکومت سے دیہی سندھ سے سپریم کورٹ میں ججز کے معاملے پر بات کی جاتی ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں انصاف کے سب سے بڑے ادارے میں برابری کی نمائندگی چاہیے ،ایک ملک میں دو نظام نہیں چل سکتے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی آئینی بینچ میں سندھ کے لئے الگ طریقہ اختیار کیاگیا، ہمارے صوبے کے ساتھ بار بار تفریق اورالگ رویہ نظرآتاہے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سندھ کے لئے بھی وہی طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے تھا جو وفاق نے اپنے لئے استعمال کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس اورآئینی بینچ کے سربراہ کو غیر متنازعہ ہوناچاہیے۔
عوام کا سب سے زیادہ واسطہ لوئر کورٹس سے پڑتا ہے ۔وزیر اعلی سندھ سے کہا ہے کہ وہ لوئر کورٹس میں اصلاحات کے لئے چیف جسٹس سے بات کریں۔انہوں نے کہا کہ جب تک لوئر کورٹس میں اصلاحات نہیں لائی جاتیں عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کیساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کررہی ہے ،طے ہوا تھاکہ پی ایس ڈی پی مشاورت سے بنائی جائیگی ،میں 26ویں ترمیم میں مصروف تھا، حکومت نے پیچھے سے بیٹھ کر کینالز کی منظوری دیدی،ہم اس منصوبے سے اتفاق نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ اتفاق رائے کے کئی طریقے ہوسکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کینالز کے مسئلے پر جو طریقہ اپنارہی ہے وہ درست نہیں ہے ۔بلاول بھٹو نے کہا کہ بطور پارٹی سربراہ میری ذمہ داری ہے کہ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کو زمینی حقائق سے آگاہ کروں، قانون سازی پر بھی مکمل مشاورت ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ پہلے فلور پر بل پیش کردیا جائے اور پھر اس کی کاپی مجھے دی جائے۔انہوں نے کہا کہ سیاست عزت کے لئے ہوتی ہے ، ناراضگی کے لئے نہیں ہوتی۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے ساتھ ناراضگی کی بات نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں حکومت پارٹنرز کیساتھ معاہدوں پر عمل کرتی ہے،اب ہمیں یہ دیکھیں گے کہ معاہدے پر کتنا عمل ہوا۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین