اسپین میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ کشتی مغربی افریقہ سے اسپین جانے کے لیے روانہ ہوئی تھی اور اس میں 86 افراد سوار تھے جن میں 66 پاکستانی شامل تھے۔ یہ حادثہ 2 جنوری کو موریطانیہ سے روانہ ہونے والی کشتی کے ساتھ پیش آیا، جس میں سے صرف 36 افراد کو بچایا جا سکا۔
تارکین وطن کے حقوق کی تنظیم "واکنگ بارڈرز” کے مطابق یہ پاکستانی اپنے گھروں سے یورپ جانے کے لیے چار ماہ قبل روانہ ہوئے تھے اور ہلاک ہونے والوں میں سے 12 کا تعلق گجرات سے تھا۔ 6 دن قبل کشتی لاپتا ہو گئی تھی اور اس بارے میں اسپین کی میری ٹائم ریسکیو سروس کو آگاہ کیا گیا تھا، تاہم انہیں کوئی اطلاع نہیں ملی۔
"واکنگ بارڈرز” کی سی ای او ہیلینا مالینو نے کہا کہ ڈوبنے والوں میں 44 پاکستانی تھے، جنہوں نے 13 دن تک اذیت میں گزارے لیکن کوئی ان کی مدد کے لیے نہیں آیا۔ گزشتہ سال 2024 میں اسپین جانے کی کوشش کرتے ہوئے 10,457 تارکین وطن جان سے گئے، جو ایک ریکارڈ ہے۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے اس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا اور رپورٹ طلب کی۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی حادثے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت کو لاشوں کی فوری واپسی اور متاثرہ خاندانوں کو درست معلومات فراہم کرنی چاہیے۔ انہوں نے انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔