اتوار, نومبر 24, 2024

پی ٹی آئی حکومت میں توشہ خانہ کی تفصیلات چھپائی جاتی تھیں، جج اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد: اسلام آبا دہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت کی توشہ پالیسی کے حوالے سے ریمارکس دیے ہیں کہ گزشتہ حکومت توشہ خانہ کی تفصیلات نہیں بتاتی تھی، ہم پوچھتے تھے تو توشہ خانہ کی تفصیلات چھپائی جاتی تھیں۔
انہوں نے یہ ریمارکس توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران دئیے۔سماعت کے دوران ایف آئی اے پراسیکیوٹر عمیر مجید ملک اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے، بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کیا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذولفقار عباس نقوی نے کہا کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے لیکن میڈیا میں پہلے سے ہے کہ ضمانت منظور ہو جائیگی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میڈیا کو چھوڑ دیں، اْن سے خود کو مستثنیٰ کر لیں، میڈیا میں کہا جاتا ہے کہ جان کر بیمار ہو گیا، جان کر نہیں آیا، میڈیا اگر سنسنی نہیں پھیلائے گا تو ان کا کاروبار کیسے گا۔
ذولفقار عباس نقوی نے کہا کہ میں ان کے ترجمانوں کی بات کر رہا ہوں ، بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے لغاری جیولری سیٹس سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا، عدالت نے استفسار کیا کہ انہوں نے جیولری سیٹ کا تخمینہ کیسے لگایا ہے؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ یہ تو عدالت میں استغاثہ بتائیگی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ چالان میں رسید بشریٰ بی بی کی ہے یا بانی پی ٹی آئی کی ہے؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ چالان میں رسید پر بشریٰ بی بی کا نام ہے، صہیب عباسی کو اس کیس میں وعدہ معاف گواہ بنایا گیا ہے، انعام اللہ شاہ کو استغاثہ نے گواہ بنایا ہے وہ وعدہ معاف گواہ نہیں ہیں، اسلام آباد کی تمام پراسیکوشن ایجنسیز نے اس توشہ خانہ کیس پر ہاتھ سیدھا کیا ہے، نیب ، ایف آئی اے ، پولیس ، الیکشن کمیشن نے بھی توشہ خانہ کیس کیا ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ پولیس نے بھی توشہ خانہ جعلی رسید کا کیس بنایا ہوا ہے، تھانہ کوہسار نے رسید سے متعلق مقدمہ درج کر رکھا ہے ، جج افضل مجوکہ صاحب کی عدالت سے بشریٰ بی بی عبوری ضمانت پر ہے، ہمیں امید ہے جج افضل مجوکہ صاحب جلد اسکا فیصلہ سنا دیں گے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے پی ٹی آئی حکومت کی توشہ تفصیلات خفیہ رکھنے کی پالیسی پر اہم ریمارکس دیے اور کہا کہ پچھلی حکومت توشہ خانہ کی تفصیلات نہیں بتاتی تھی، ہم پوچھتے تھے تو توشہ خانہ کی تفصیلات چھپائی جاتی تھیں، ہائی کورٹ میں گزشتہ حکومت آرہی تھی کہ توشہ خانہ کا کسی کو پتا نہیں ہونا چاہیے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ ایک گراؤنڈ یہ بھی ہے اس کیس کو رجسٹر کرنے میں ساڑھے 3 سال کی تاخیر ہے ، اس مقدمے کا اندراج ساڑھے تین برس سے زائد تاخیر سے کیا گیا، کوئی جرم نہیں ہوا، جس کیس میں جرم واضح نہ ہو تو کیس مزید انکوائری اور ضمانت کا ہے، توشہ خانہ پالیسی کے مطابق تحائف لیے گئے ہیں۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اس وقت ان تحائف کی جو مالیت تھی پالیسی کے مطابق ادا کرکے لیا ہے، توشہ خانہ پالیسی 2018 کی سیکشن ٹو کے تحت میں نے تحائف لیے، جو قیمت کسٹم اور اپریزر نے لگائی میں نے وہ قیمت دیکر تحفہ رکھ لیا، آج انہوں نے ساڑھے تین سال بعد بیان بدلا ہے ، قیمت کا تعین کرنے والا کہہ رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے دھمکی آئی، صہیب عباسی بیان دیتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی میرے پاس نہیں آئے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ صہیب عباسی کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے انعام اللہ شاہ کے ذریعے تھریٹ کیا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ کیا کسٹم کے تینوں اپریزرز نے بھی کسی دھمکی کا ذکر کیا؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ نہیں، وہ تینوں افسران کہتے ہیں کہ اْن کو کسی نے اپروچ نہیں کیا، اگر کسی نے اپروچ نہیں کیا تو اْن تینوں نے اپنا کام کیوں نہیں کیا۔اس کے ساتھ ہی بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر کے دلائل مکمل، ہوگئے، بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ میں کچھ چیزوں تحریری جمع کروادوں گا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے دلائل کا آغاز کیا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایف آئی اے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے گواہوں کے بیانات پڑھے ہیں ؟ تفتیشی افسر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ 18 ستمبر کو گواہوں کو نوٹس کیا تھا ، گواہ آئے تھے انہوں نے پہلے سے نیب کو دئیے بیانات کی تصدیق کی۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے خود گواہوں کے بیانات پڑھے ہیں ؟
ایف آئی اے تفتیشی افسر نے کہا کہ جی 19 ستمبر کو میں نے پڑھے تھے۔ایف آئی اے پراسیکیوٹر عمیر مجید نے کہا کہ بلغاری سیٹ توشہ خانہ میں جمع ہی نہیں کرایا گیا، ریاست کے تحفے کی کم قیمت لگوا کر ریاست کو نقصان پہنچایا گیا، بانی پی ٹی آئی اور اْن کی بیوی دونوں نے فائدہ اٹھایا۔اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو کیسے فائدہ ہوا؟
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ جب بیوی کو فائدہ ملا تو شوہر کا بھی فائدہ ہوا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ او پلیز، میری بیوی کی چیزیں میری نہیں ہیں، ہم پتا نہیں کس دنیا میں ہیں۔اس دوران عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ڈویژن بینچ کی سماعت کے بعد کیس رکھ لیتے ہیں۔

Related Articles

Latest Articles