اسلام آباد:قومی اسمبلی نے سوشل میڈیا قوانین کو سخت کرنے سے متعلق پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2024ء کو بھاری اکثریت سے منظور کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا، جس میں الیکٹرانک جرائم سے متعلق پیکا بل 2024ء پیش کیا گیا۔ یہ بل وفاقی وزیر رانا تنویر نے ایوان میں ضمنی ایجنڈے کے طور پر پیش کیا۔
بل پیش ہونے کے دوران صحافیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے پریس گیلری سے واک آؤٹ کر گئے۔
پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ صحافیوں کی جانب سے واک آؤٹ کیے جانے کے بعد ایوان میں اراکین کو بھیج کر یہ معلوم کیا جائے کہ اس احتجاج کی وجہ کیا تھی۔
اس بل کے تحت حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرے گی، جو سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلانے والوں پر 3 سال قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کر سکے گی۔
وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بل میں بتایا کہ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ دیگر صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔
اس اتھارٹی کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور ان کی منسوخی کی نگرانی کرے گی، ساتھ ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے گی۔
اتھارٹی کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار حاصل ہوگا اور وہ متعلقہ اداروں کو غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت دے سکے گی۔ سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں سے متاثرہ افراد اتھارٹی سے درخواست دینے کے لیے 24 گھنٹے کا وقت دیں گے۔
اس ترمیمی بل کے تحت اتھارٹی 9 ارکان پر مشتمل ہوگی، جن میں سیکریٹری داخلہ، پی ٹی اے اور پیمرا کے چیئرمین شامل ہوں گے۔ اتھارٹی کا چیئرمین ایک تجربہ کار صحافی یا سافٹ ویئر انجینئر ہوگا، جو کم از کم 15 سال کے تجربے کا حامل ہو۔
حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو بھی نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ صحافیوں کے علاوہ سافٹ ویئر انجینئر، وکیل اور آئی ٹی کے ماہرین بھی اس اتھارٹی کا حصہ ہوں گے۔
اس بل پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل بھی قائم کرے گی، جس کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہوگا اور اس میں صحافیوں اور سافٹ ویئر انجینئرز کو بھی شامل کیا جائے گا۔