اسلام آباد:وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ کے فل کورٹ تشکیل دینے سے متعلق حکم کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے آئینی بینچ کو حکومت کے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا۔
سپریم کورٹ میں کسٹم ریگولیٹری ڈیوٹی کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کا حکم غیر آئینی ہے، اور وفاقی حکومت اسے عدالت میں چیلنج کرے گی۔
سپریم کورٹ کے ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ نذر عباس نے جان بوجھ کر عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی اور ان کے خلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لے لیا گیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ یہ معاملہ چیف جسٹس کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ فل کورٹ تشکیل دے کر اس پر غور کیا جائے۔ فل کورٹ آئین کے آرٹیکل 175 کی شق 6 کے تحت اس معاملے کو حتمی طور پر دیکھے گی۔
عدالت نے کہا کہ دو عدالتی کمیٹیوں نے مقدمات کو ایک بینچ سے دوسرے بینچ کو منتقل کرنے کے انتظامی احکامات جاری کیے، جو عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔عدالت نے فل کورٹ تشکیل دینے کی سفارش کی تاکہ اس معاملے پر اجتماعی اور مستند فیصلہ کیا جا سکے۔
عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ نذر عباس نے کوئی بدنیتی نہیں دکھائی اور ان کے اقدامات توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتے۔
وفاقی حکومت نے عدالتی حکم پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دیا اور اسے چیلنج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے کا ازسرنو جائزہ لے کر انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
عدالتی فیصلے میں فل کورٹ کے لیے مضبوط دلائل پیش کیے گئے اور سابقہ مثالوں کا حوالہ دیا گیا، جن میں بڑے بینچز تشکیل دیے گئے تھے۔ عدالت نے کہا کہ فل کورٹ کے ذریعے ادارہ جاتی اور اجتماعی غور و فکر ضروری ہے۔
یہ معاملہ اب وفاقی حکومت اور عدلیہ کے درمیان ایک اہم قانونی تنازعے کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس کا حتمی فیصلہ آنے والے دنوں میں سپریم کورٹ کی کارروائی سے سامنے آئے گا۔