لاہور:سائنسی جریدے "نیچر” میں شائع ہونے والی دو نئی تحقیقات میں یہ حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ زمین پر زندگی کی ابتدا میں استعمال ہونے والا مواد خلا سے آیا تھا۔ یہ دریافت اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے جس کا ذکر چودہ سو سال پہلے قرآن مجید میں کیا جا چکا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا نے زمین کے قریب گردش کرنے والے ایک سیارچے "بین ” (Bennu) سے مٹی حاصل کرنے کے لیے ایک مشن روانہ کیا تھا۔ یہ مٹی 2023 میں زمین پر پہنچی، جسے چار مختلف براعظموں میں موجود 66 سائنسدانوں کو تحقیق کے لیے بھیجا گیا۔
تحقیقات سے معلوم ہوا کہ بینو کی مٹی میں پانی کے علاوہ زندگی کے آغاز کے لیے درکار تمام نامیاتی اجزاء، معدنیات اور نمکیات پائے گئے۔ ان میں وہ اہم امائنو ایسڈز بھی شامل ہیں جو ڈی این اے کی تشکیل میں مدد دیتے ہیں۔
یہ حیران کن دریافت سائنسدانوں کے لیے ایک نیا معمہ بن گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غالب امکان یہی ہے کہ بینو سمیت نظام شمسی کے دیگر سیارچے اور سیارے بھی خلا میں موجود مختلف ستاروں اور دیگر فلکیاتی اجسام سے زندگی کے بنیادی اجزا حاصل کرتے رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ الاعراف کی آیت 185 میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا:
"کیا وہ نہیں دیکھتے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اور ان سب چیزوں پر غور نہیں کرتے جو اللہ نے پیدا کی ہیں؟”
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ اور ہر طریقے سے زندگی تخلیق کرنے پر قادر ہیں، لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھے اور اپنے خالق پر ایمان لائے۔
تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ بینو کی مٹی میں ایسے مرکبات پائے گئے جو اب تک زمین یا کسی اور سیارے پر نہیں ملے تھے۔ یہ دریافت نظام شمسی کی تشکیل اور زمین پر زندگی کی ابتدا کے حوالے سے اہم رازوں کو بے نقاب کر سکتی ہے۔
یاد رہے کہ بینو نامی یہ سیارچہ 490 میٹر قطر کا ہے اور زمین کے بہت قریب گردش کر رہا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ 2182 کے آس پاس زمین سے ٹکرا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلنے کا امکان ہے۔