آئی ایم ایف سے قرض کی قسط کے لیے پاکستان کو نئے ٹیکس اہداف اور شرائط کا سامنا

جبکہ پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں پر کاربن ٹیکس عائد کرنے کے امکان پر بھی بات چیت جاری ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، اور حکومت کو ایک ارب ڈالر کی قسط کے حصول کے لیے سخت شرائط اور نئے ٹیکس اہداف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان مذاکرات میں بجٹ، گردشی قرضے میں کمی اور اضافی ٹیکسوں کی تجاویز زیر غور ہیں۔ پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں پر کاربن ٹیکس، بجلی کے نرخوں میں اضافی سرچارج، اور بینکوں سے قرض لینے کے منصوبے پر بات چیت ہو رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو مزید معاشی اصلاحات پر زور دینے کا امکان ہے۔

ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات میں آئندہ مالی سال کے بجٹ اور گردشی قرضے میں کمی پر تفصیلی تبادلہ خیال ہو رہا ہے۔ حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ بجلی کے بلوں میں 2.80 روپے فی یونٹ سرچارج لگانے کی تجویز پر غور کرے، جبکہ پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں پر کاربن ٹیکس عائد کرنے کے امکان پر بھی بات چیت جاری ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں پر کاربن لیوی لگانے کی تجویز زیر غور ہے۔ اس کے علاوہ، نجکاری کے لیے شارٹ ٹرم پلان پر بھی حتمی بات چیت متوقع ہے تاکہ حکومت کی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکے۔

ذرائع کے مطابق، الیکٹرک وہیکل پالیسی میں ٹیکس اصلاحات پر بھی گفتگو جاری ہے، اور آئی ایم ایف پاکستان سے مزید اقدامات کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ تکنیکی مذاکرات کے بعد پالیسی سطح کے مذاکرات مکمل ہونے پر آئی ایم ایف کی جانب سے ابتدائی بیان جاری کیے جانے کا امکان ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کو بریفنگ دی ہے کہ زرعی انکم ٹیکس کی مد میں 300 ارب روپے جمع کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح، سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان پر خصوصی اجلاس آج ہوگا، جس میں گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے 1250 ارب روپے کے قرضے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ حکومت نے بینکوں سے 10.8 فیصد شرح سود پر 1250 ارب روپے قرض لینے کی تجویز دی ہے تاکہ بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے کو کم کیا جا سکے۔

ذرائع کے مطابق، صارفین پر 2.80 روپے فی یونٹ سرچارج لگا کر قرض اتارنے کی تجویز زیر غور ہے، جبکہ نیپرا کے فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی خصوصی اجلاس ہوگا۔ قومی مالیاتی کمیشن میں وفاق اور صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم پر بھی تفصیلی بات چیت متوقع ہے تاکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین