لاہور: منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اولاد کی تربیت اور ماں باپ کی ذمہ داری کے موضوع پر جامع شیخ الاسلام ماڈل ٹاؤن لاہور میں جمعۃ المبارک کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیک سیرت اولاد والدین کے لیے صدقہ جاریہ ہے، اگر والدین چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد ان کی فرمانبردار ہو،خاندان اور سوسائٹی کیلئے مفید ہو تو انہیں دین کا علم، فہم اور اچھے اخلاق و کردار سکھائیں،والدین اپنی اولاد کو مادی ترقی کی دوڑ میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دینی تعلیم وتربیت کا اہتمام بھی کریں، دین کافہم اولاد کے اخلاق و کردار کو نکھارے گا۔ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنی اولاد کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ،حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تفسیر یوں بیان فرمائی کہ اپنی اولاد کو دین کا علم اور فہم دو،انہیں ادب سکھاؤ، دین کے علم کی برکت سے اولاد میں اچھی خوبیاں اور اوصاف پیدا ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ والدین سے اولاد کی تربیت کے بارے میں باز پرس کریں گے، اس لیے والدین اولاد کی تربیت کی ذمہ داری کو ہلکا نہ جانیں، اگر والدین باقاعدگی سے نماز ادا کرنے والے ہونگے، جھوٹ سے نفرت کرتے ہونگے، رزق حلال کو ترجیح دینے والے ہونگے تواولاد بھی نمازی ہوگی، والدین اپنے اخلاق و کردار سے اولاد کی تربیت کریں، پیغمبران خدا نے بھی اپنی اولاد کی تربیت پر خاص توجہ دی۔ انہوں نے کہا کہ اچھی تربیت والی اولاد والدین کے ساتھ حسن سلوک کی قرآنی ہدایات و تعلیمات پر عمل پیرا ہوتی ہے،اولاد کی دینی تربیت کی ابتدا نماز پنجگانہ کی ادائیگی کی پابندی سے کریں،انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو وصیت فرمائی جو آج بھی ہر ماں باپ کے لئے راہنمائی کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے میرے بیٹے شرک سے بچنا،والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، ہمیشہ شکر گزار رہنا، ادب سے پیش آنا، صالحین کی اتباع میں زندگی بسر کرنا، اپنے قول و فعل کے بارے میں چوکنا رہنا کیونکہ رب تعالیٰ کی ذات سے کوئی شے مخفی نہیں،زندگی بھر نماز قائم رکھنا، ہمیشہ نیکی کا حکم دیتے رہنا، برائی سے بچنا اور بچاتے رہنا، اللہ کی راہ میں جب بھی کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرنا،غرور سے بچنا، اللہ کی زمین پر اَکڑ کر نہ چلنا یہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے، جب چلو تو میانہ روی سے چلو کسی سے مخاطب ہو تو پیار سے بات کرنا اور اگر کوئی بات پسند نہ آئے تو سلامتی بھیجتے ہوئے گزر جانا مگر اپنا چہرہ غرور سے پھیرتے ہوئے نہ چلنا اور اپنی آواز کو پست رکھنا۔