نفس کی اندھا دھند پیروی کرکے آخرت خراب نہ کریں: ڈاکٹر طاہر القادری

تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست اعلیٰ شیخ الاسلام کا شہر اعتکاف میں خطاب

لاہور:تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست اعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے شہر اعتکاف کے دوسرے روز اپنے خطاب میں کہا کہ اپنے نفس کی پیروی میں اپنی آخرت کو خراب نہ کریں، اپنی خواہشات کے غلبے میں اپنے دین اور اپنی آخرت کو نقصان نہ پہنچائیں۔ اللہ کے ولی وہی ہیں جو دنیا کے فانی عیش و آرام کو چھوڑ کر یادِ الٰہی میں سکون پاتے ہیں۔ جو لوگ اپنی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی بنا لیتے ہیں وہی قیامت کے دن کامیاب ہوں گے۔ پس دنیا کی عارضی لذتوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اللہ کے برگزیدہ بندوں کے نقشِ قدم پر چلیں کیونکہ یہی راستہ نجات اور فلاح کا راستہ ہے۔ دریں اثنا منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے نماز ظہر کے بعد فکری و تربیتی نشست میں سیرت انبیا اور شخصیت سازی کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کرام کے ذکر سے لوگوں کی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے نصیحتیں فرماتا ہے، قرآن مجید میں ایسے سبق اور عبرت انگیز تذکرے موجود ہیں۔انبیاء کی سیرت بیان کرنا سنتِ مصطفی ؐ بھی ہے اور سنتِ خدا بھی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اُمتِ مسلمہ کے لیے حضور نبی اکرمؐ کی ذاتِ اقدس کو اسوہ بنا کر بھیجا۔ان تذکروں سے اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ میرے انبیاء کا بار بار ذکر ہو اور لوگ اُن کے زہدوتقویٰ، صبر و قناعت اور توحیدِ ربانی کے بیان سے نصیحت حاصل کریں کیونکہ یہی وہ کامیاب اور انعام یافتہ بندے ہیں جن کے راستے پر چل کر دنیوی واُخری کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں، انھوں نے کہا کہ جب حضور نبی اکرم ؐ کو کفار و مشرکین تکالیف دے رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکے تالیفِ قلب کے لیے سابقہ انبیاء کرام کی تکلیفوں کے بارے میں آگاہ فرمایا۔کبھی حضرت یونسؑ کے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی تکلیف کا ذکر فرمایا۔کبھی حضرت ایوب کے صبر کا ذکر فرمایا۔کبھی حضرت یوسف ؑ کی اسیری کا تذکرہ بیان کیا۔کبھی حضرت ابراہیم ؑ اور آتشِ نمرود کا واقعہ بیان کیا۔کبھی حضرت عیسیؑ کو پیش آنے والے مصائب کے بارے میں اور کبھی حضرت موسیؑ کی استقامت اور فرعون کے مظالم کا تفصیل سے تذکرہ کیا۔ان تذکروں کا بنیادی مقصد اس بات کی تعلیم اور تربیت دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور ثابت قدم اہلِ حق کو وہ کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ انبیاء امت کے لیڈر ہوتے ہیں اور مثالی لیڈر وہ ہوتا ہے جس کا صبر اور حوصلہ پہاڑ جیسا ہو۔لیڈر خود مصیبتیں جھیلتا ہے تاکہ معاشرہ اَمن و سکون کا گہوارہ بن جائے۔لیڈر امت کو شعور دیتا ہے تاکہ کوئی اُسے طاقت کے زور پر غلام نہ بنا لے اور اس کی لا علمی کو استحصال کا ذریعہ نہ بنا لے۔پیغمبرانِ خدا نے جن جن مصائب کا سامنا کیا وہ سارے مصائب کا تنِ تنہا خاتم النبیین حضور نبی اکرمﷺ نے سامنا کیا اور نازک سے نازک موقع پر بھی امت کو ہلاکت کی بد دعا نہ دی۔آپ ﷺ نے ہمیشہ دعا کی کہ اے اللہ! میری امت کو ہدایت کے خزانے عطا کر اور انہیں دنیا اور آخرت کی عزتیں اور رفعتیں عطا فرما۔سیرتِ انبیاء علیہم السلام تعمیرِ شخصیت اور تشکیلِ شخصیت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر شخص کی عقل اور ذہنی سطح کے مطابق بات کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بار بار آیاتِ قرآنیہ اس لیے دہرائی ہیں تاکہ ایک بات کو پختہ کیا جا سکے اور وہ ذہن نشین ہو جائے۔ یہ بات کے ابلاغ کا اَحسن طریقہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسی اور ہارون ؑکو فرعون کے پاس بھیجا تو فرمایا: اُس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا۔اچھی گفتگو انسانی طبیعت میں جمال پیدا کرتی ہے۔جب اللہ تعالی کوئی بات سمجھانے کے لیے بار بار اُس کا تذکرہ فرماتا ہے تو ہم ایک بات کو بار بار سمجھانے میں شرم وعار محسوس کیوں کرتے ہیں؟ یہ نکتہ بطور خاص علمائے کرام، مبلغین، والدین، اساتذہ کرام، مشائخ عظام، واعظین کے ہمہ وقت پیشِ نظر رہنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اخلاص اور مثبت سوچ کے ساتھ مکالمہ کرنا بھی انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔اگر کوئی نافرمانی پر بضد ہے تو اہلِ علم اور اہلِ حق کہ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نرم خوئی کے ساتھ اصلاحِ احوال کی نیت سے بار بار مخاطب ہوں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین