سپریم کورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود بینچ اختیارات کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے پر کارروائی کرتے ہوئے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیا، جنہوں نے پہلے ہی نذر عباس کو شوکاز نوٹس جاری کر رکھا تھا۔
گریڈ 21 کے افسر نذر عباس کی برطرفی کا نوٹیفکیشن ایڈیشنل رجسٹرار ایڈمن پرویز اقبال کے دستخط سے جاری کیا گیا، جس میں انہیں فوری طور پر رجسٹرار آفس رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ مقدمات کی غلط شیڈولنگ کے باعث ادارے اور فریقین کا وقت اور وسائل ضائع ہوئے۔
معاملہ اس وقت سامنے آیا جب کسٹمز ایکٹ سے متعلق کیس کو آئینی بینچ کے بجائے ایک عام بینچ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ اعلامیے کے مطابق، غلطی کی سنگینی کے پیش نظر 17 جنوری کو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایسے مقدمات آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور آئندہ تمام متعلقہ مقدمات آئینی بینچ کمیٹی کے سامنے ہی پیش کیے جائیں گے۔
اعلامیے کے مطابق، آئینی بینچ کمیٹی نے تمام زیر التوا مقدمات کی تفصیلی جانچ پڑتال اور نئے مقدمات کی مکمل چھان بین کے لیے ہدایات جاری کیں۔ مزید برآں، 26ویں آئینی ترمیم اور قوانین کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والے تمام مقدمات کو بھی سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے، جس کی سماعت 27 جنوری کو آٹھ رکنی آئینی بینچ کرے گا۔
ایڈیشنل رجسٹرار (جوڈیشل) نذر عباس کی غیر موجودگی میں رجسٹرار سپریم کورٹ محمد سلیم خان نے بینچ کے سامنے پیش ہو کر وضاحت دی کہ مقدمات کی غلط شیڈولنگ کسی بدنیتی کا نتیجہ نہیں بلکہ معمولی غلطی تھی، جس کی تحقیقات جاری ہیں۔ چیف جسٹس نے اس بات پر زور دیا کہ آئندہ ایسی غلطیوں سے بچنے کے لیے مزید وسائل مختص کیے جائیں تاکہ فریقین اور قانونی برادری کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
بینچ اختیارات کے کیس میں پیش رفت نہ ہونے پر جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک، اور جسٹس عقیل عباسی نے چیف جسٹس آفریدی اور جسٹس امین الدین خان کو خط لکھا تھا۔ خط میں جسٹس عقیل عباسی کی بینچ میں شمولیت اور کیس کی سماعت مقرر نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اس معاملے کو توہین عدالت قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی 20 جنوری کو سماعت کے لیے مقدمہ فکس کر سکتی تھی لیکن ایسا نہ ہونا عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔
یہ پیش رفت عدالت کی جانب سے زیر التوا مقدمات کی جانچ پڑتال اور بہتر نظم و نسق کے عزم کی عکاسی کرتی ہے تاکہ مستقبل میں کسی قسم کی کوتاہی سے بچا جا سکے۔