صدر مملکت کے دستخط کے بعد متنازعہ ترمیمی بل پیکا قانون کی شکل اختیار کر گیا

نئے قوانین کے تحت جھوٹی خبروں کی اشاعت پر 3 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے

صدر زرداری نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025 اور خواتین کے حقوق سے متعلق ترمیمی بل کی بھی منظوری دے دی

اسلام آباد:صدر مملکت آصف علی زرداری نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام سے متعلق ترمیمی بل 2025 (پیکا) کی باضابطہ منظوری دے دی۔

ایوان صدر کے ذرائع کے مطابق صدر مملکت نے پیکا ایکٹ کے علاوہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025 پر بھی دستخط کر دیے۔ اسی طرح خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (ترمیمی) بل 2025 کی بھی توثیق کر دی گئی۔

اس سے پہلے پارلیمانی رپورٹر نے پیکا ایکٹ پر اعتراضات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کے ذریعے صدر مملکت کو اپنا مؤقف پہنچایا تھا۔ کچھ ذرائع کے مطابق، صدر زرداری نے صحافیوں کو اعتماد میں لینے تک اس بل پر دستخط مؤخر کر دیے تھے۔

حکومت نے اس بل کو پہلے قومی اسمبلی اور بعد میں سینیٹ سے منظور کرایا، جس کے بعد اسے صدر کی منظوری کے لیے بھیجا گیا تھا۔

پیکا ایکٹ ترمیمی بل کیا ہے؟

اتھارٹی کو آن لائن مواد ہٹانے اور کارروائی کرنے کے اختیارات حاصل ہوں گے

ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق، ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (DRPA) قائم کی جائے گی، جسے آن لائن مواد کو ہٹانے، فحش اور ممنوعہ مواد تک رسائی حاصل کرنے اور ایسے مواد کو شیئر کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا اختیار حاصل ہوگا۔

سوشل میڈیا کے لیے نئی تعریف متعارف

ترمیم شدہ بل میں "سوشل میڈیا پلیٹ فارم” کی نئی وضاحت دی گئی ہے، جس میں وہ تمام ٹولز اور سافٹ ویئر شامل کیے گئے ہیں جو سوشل میڈیا تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ویب سائٹس، ایپلیکیشنز اور دیگر مواصلاتی ذرائع کو بھی اس قانون کے دائرہ کار میں شامل کر دیا گیا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کے اختیارات

یہ اتھارٹی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ڈیجیٹل اخلاقیات سمیت دیگر معاملات پر تجاویز فراہم کرے گی۔ اس کا بنیادی مقصد عوام کو محفوظ ڈیجیٹل ماحول فراہم کرنا ہوگا۔

اتھارٹی کے اختیارات میں شامل ہیں:

سوشل میڈیا مواد کو ریگولیٹ کرنا

پیکا ایکٹ کے تحت شکایات کی جانچ پڑتال کرنا

غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک یا محدود کرنا

سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستان میں دفاتر یا نمائندے مقرر کرنے کا پابند بنانا

یہ اتھارٹی چیئرپرسن اور 6 ممبران پر مشتمل ہوگی۔ وفاقی حکومت چیئرپرسن اور تین ممبران کو تین سال کے لیے تعینات کرے گی، جبکہ باقی ممبران میں سیکرٹری اطلاعات، سیکرٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی اے شامل ہوں گے۔

چیئرپرسن کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ غیر قانونی آن لائن مواد کو فوری طور پر بلاک کرنے کے احکامات جاری کرے، جس کی اتھارٹی کو 48 گھنٹوں کے اندر توثیق کرنا ہوگی۔

سوشل میڈیا کمپنیوں پر سخت ضوابط

مجوزہ ترامیم کے مطابق، اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو رجسٹرڈ کرنے اور قواعد و ضوابط کی پاسداری یقینی بنانے کے اختیارات رکھے گی۔ اس کے علاوہ، اتھارٹی حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو غیر قانونی مواد ہٹانے کے احکامات جاری کرنے کی مجاز ہوگی۔

سیکشن 37 میں غیر قانونی مواد کی فہرست کو وسیع کر دیا گیا ہے، جس میں شامل ہیں:

اسلام مخالف مواد

پاکستان کی سلامتی اور دفاع کے خلاف مواد

امن عامہ کو متاثر کرنے والا مواد

غیر شائستہ اور غیر اخلاقی مواد

توہین عدالت اور دیگر جرائم کو فروغ دینے والا مواد

فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے بیانات

جعلی یا جھوٹی خبریں

سرکاری اداروں، عدلیہ اور مسلح افواج کے خلاف غلط الزامات

جھوٹی خبر پر سخت سزائیں، نیا سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم ہوگا

نئے قوانین کے تحت جھوٹی خبروں کی اشاعت پر 3 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔

اس مقصد کے لیے حکومت "سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل” قائم کرے گی، جو 90 دن کے اندر کیسز کا فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا۔ ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف 60 دن کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔

نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) قائم ہوگی

بل کے مطابق، حکومت ایک نئی سائبر کرائم ایجنسی (NCCIA) قائم کرے گی، جو ملک بھر میں سائبر کرائم کے مقدمات کی تحقیقات کرے گی۔

اہم نکات:

ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ ختم کر دیا جائے گا

ایف آئی اے کے تمام دفاتر اور مقدمات NCCIA کے حوالے کیے جائیں گے

ایجنسی کا سربراہ ڈی جی نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ہوگا، جس کا عہدہ آئی جی پولیس کے برابر ہوگا

اسمبلیوں میں حذف شدہ مواد شیئر کرنے پر سخت کارروائی

اگر قومی اسمبلی، سینیٹ یا صوبائی اسمبلی میں کسی مواد کو حذف کر دیا گیا ہو اور وہ سوشل میڈیا پر نشر کیا جائے تو اس پر سخت سزا دی جائے گی۔

سزا:

3 سال قید

20 لاکھ روپے جرمانہ

یہ قانون اسمبلیوں کے اسپیکرز اور چیئرمین سینیٹ کے اختیارات کے تحت لاگو ہوگا، جس کے تحت وہ کسی بھی حذف شدہ مواد کی اشاعت پر کارروائی کر سکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین