اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتا افراد کی بازیابی کے معاملے پر ریاست کی ناکامی پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور ملک کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق، اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر لارجر بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس سنا، جس میں جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس ارباب محمد طاہر شامل تھے۔ سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل ایمان مزاری اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس محسن کیانی نے نشاندہی کی کہ ان کا موقف تھا کہ خفیہ ایجنسیوں کے نمائندوں کو اِن کیمرا بریفنگ کے لیے بلایا جائے، لیکن ان کے ساتھی ججز کا خیال تھا کہ پہلے وفاقی حکومت کو موقع دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جبری گمشدہ افراد کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ انتقال کر گئے، جس کے بعد کمیشن غیر فعال ہوگیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کمیشن اپنا کام نہیں کر رہا تو اسے بند کر دینا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر بھی سوال اٹھایا کہ کابینہ کی سب کمیٹی میں خفیہ ایجنسیوں کے افراد شامل ہی نہیں کیے گئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا گزشتہ سماعت کے بعد کسی لاپتا شخص کی بازیابی ممکن ہوئی؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور وزارتِ دفاع کے نمائندے نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے مزید وقت دینے کی درخواست کی، جس پر جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ ریاست اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، ہم جہاں سے چلے تھے وہیں کھڑے ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ اٹارنی جنرل عدالت کو یقین دہانی کرا چکے تھے، لیکن ان کی یقین دہانیوں پر عمل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے علاقے خضدار سے 15 سالہ بچہ بھی اغوا کر لیا گیا ہے، جو اس معاملے کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ لاپتا افراد کے اہلخانہ کے آنسو پونچھنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی شخص دہشت گردی میں ملوث ہے تو اس کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اگر کوئی لاپتا شخص کسی دہشت گرد حملے میں مارا گیا تو اس کا ڈیٹا موجود ہے یا نہیں؟
جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ جبری گمشدہ افراد کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن کی ناکامی کے بعد یہ کیسز عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ عدالت نے وفاقی حکومت کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس دلایا ہے، اور حکومت اب اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ یہاں کوئی ادارہ ناکام ہو کر استعفیٰ نہیں دیتا، جیسے مہذب معاشروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چاہے وہ جبری گمشدہ افراد کا کمیشن ہو، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا وزیراعظم، جب تک کسی کا کوئی پیارا لاپتا نہ ہو، وہ اس درد کو نہیں سمجھ سکتا۔
عدالت نے کابینہ کی سب کمیٹی اور خفیہ اداروں کے افسران کو مشترکہ اجلاس منعقد کرنے اور لاپتا افراد کے اہلخانہ کو سننے کی ہدایت کی۔ جسٹس کیانی نے کہا کہ جو شخص دس سال سے لاپتا ہے، اس کے اہلخانہ کن حالات میں زندگی گزار رہے ہوں گے؟ اگر کوئی زندہ نہیں تو اہلخانہ کو کم از کم معاوضہ دیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے اگلی سماعت پر اٹارنی جنرل کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا اور کیس کی سماعت 6 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔