لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے پیکا ترمیمی ایکٹ کے خلاف دائر درخواست میں فوری طور پر اس کے نفاذ کو روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔
تفصیلات کے مطابق، لاہور ہائی کورٹ میں پیکا ترمیمی ایکٹ کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے حکم دیا کہ فریقین کے مؤقف کو سننے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ عدالت نے اس حوالے سے تمام متعلقہ فریقوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تین ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔
دورانِ سماعت، جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دیے کہ پہلے تمام فریقین کا مؤقف سامنے آئے، پھر کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ عدالت میں یہ درخواست ایک صحافی کی جانب سے دائر کی گئی تھی، جس میں وکیل ندیم سرور ایڈووکیٹ نے دلائل دیے۔
واضح رہے کہ اس درخواست میں الیکشن کمیشن اور پی ٹی اے سمیت دیگر اداروں کو فریق بنایا گیا تھا۔ درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ پیکا ترمیمی بل قومی اسمبلی میں بغیر کسی مشاورت اور اسٹیک ہولڈرز کی رائے لیے بغیر منظور کیا گیا۔ مزید یہ بھی کہا گیا کہ بل کی منظوری کے لیے اسمبلی کے قواعد معطل کر کے اسے فاسٹ ٹریک طریقے سے پاس کیا گیا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت فیک انفارمیشن دینے پر تین سال قید اور جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ ماضی میں بھی اس قانون کو آزادیٔ اظہار کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اور نئی سزاؤں کے اضافے سے اظہارِ رائے پر مزید قدغن لگ جائے گی۔
عدالت میں دائر درخواست میں مزید کہا گیا کہ پیکا بل بغیر کسی مشاورت کے نافذ کیا گیا، جس سے آزادیٔ اظہار پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ درخواست گزار نے استدعا کی کہ اس ایکٹ کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کیا جائے اور اس کے تحت ہونے والی قانونی کارروائیوں کو عدالت کے حتمی فیصلے سے مشروط کیا جائے۔